EN हिंदी
انیس احمد انیس شیاری | شیح شیری

انیس احمد انیس شیر

9 شیر

اب غم کا کوئی غم نہ خوشی کی خوشی مجھے
آخر کو راس آ ہی گئی زندگی مجھے

انیس احمد انیس




گوارا ہی نہ تھی جن کو جدائی میری دم بھر کی
انہیں سے آج میری شکل پہچانی نہیں جاتی

انیس احمد انیس




ہمیں نے چن لئے پھولوں کے بدلے خار دامن میں
فقط گلچیں کے سر الزام ٹھہرایا نہیں جاتا

انیس احمد انیس




کبھی اک بار ہولے سے پکارا تھا مجھے تم نے
کسی کی مجھ سے اب آواز پہچانی نہیں جاتی

انیس احمد انیس




میں وہ رند نو نہیں ہوں جو ذرا سی پی کے بہکوں
ابھی اور اور ساقی کہ میں پھر سنبھل رہا ہوں

انیس احمد انیس




طواف ماہ کرنا اور خلا میں سانس لینا کیا
بھروسہ جب نہیں انسان کو انسان کے دل پر

انیس احمد انیس




ادھر وہ عہد و پیمان وفا کی بات کرتے ہیں
ادھر مشق ستم بھی ترک فرمایا نہیں جاتا

انیس احمد انیس




وہ اپنے دامن پارہ پہ بھی نگاہ کرے
جہاں میں مجھ پہ اٹھا کر جو انگلیاں گزرے

انیس احمد انیس




یا رب مرے گناہ کیا اور احتساب کیا
کچھ دی نہیں ہے خضر سی عمر رواں مجھے

انیس احمد انیس