اب غم کا کوئی غم نہ خوشی کی خوشی مجھے
آخر کو راس آ ہی گئی زندگی مجھے
وہ قتل کر کے مجھ کو پشیماں ہوئے تو کیا
لوٹا سکیں گے پھر نہ مری زندگی مجھے
سارے جہاں میں ہوتی ہے امن و اماں کی بات
لیکن نظر نہ آئی کہیں آشتی مجھے
نیزہ اٹھائے پھرتی ہے ہر راہ میں قضا
ہر موڑ پر ہراس ملی زندگی مجھے
میں گھونٹ گھونٹ جام سے بہلاؤں جی کو کیا
بے خوف کاش کر ہی دے تشنہ لبی مجھے
اک لذت گناہ تھی کیا لذت گناہ
تا عمر راس آئی نہ پھر بندگی مجھے
کچھ آرزو نہیں کہ فرشتہ بنوں انیسؔ
کافی ہے ہاں جو لوگ کہیں آدمی مجھے
غزل
اب غم کا کوئی غم نہ خوشی کی خوشی مجھے
انیس احمد انیس