شیشہ ہی چاہئے نہ مے ارغواں مجھے
بے مانگے جو ملے وہی کافی ہے ہاں مجھے
اے شوخئ نگاہ ذرا احتیاط رکھ
اس بزم میں ہے پاس حدیث بتاں مجھے
یا رب مرے گناہ کیا اور احتساب کیا
کچھ دی نہیں ہے خضر سی عمر رواں مجھے
چنتا تھا راہ زیست کے خاروں کو میں ہنوز
ہے سب عبث اجل نے کہا ناگہاں مجھے
لگتا ہے اک ہجوم میں گم ہے مرا وجود
ڈستی ہیں پھر بھی کس لئے تنہائیاں مجھے
ان کے لئے ہیں اطلس و کمخواب کے سریر
تن ڈھانکنے کو کافی ہیں کچھ دھجیاں مجھے
کیا کیا ستم زمانے کے میں سہہ گیا انیسؔ
مرنے کے بعد یاد کرو گے میاں مجھے
غزل
شیشہ ہی چاہئے نہ مے ارغواں مجھے
انیس احمد انیس