آتا ہوں میں زمانے کی آنکھوں میں رات دن
لیکن خود اپنی نظروں سے اب تک نہاں ہوں میں
عمیق حنفی
چھوتے ہی آشائیں بکھریں جیسے سپنے ٹوٹ گئے
کس نے اٹکائے تھے یہ کاغذ کے پھول ببول میں
عمیق حنفی
سگریٹ جسے سلگتا ہوا کوئی چھوڑ دے
اس کا دھواں ہوں اور پریشاں دھواں ہوں میں
عمیق حنفی
دل میں دکھ آنکھوں میں نمی آسماں پر گھٹائیں
اندر باہر اس اور اس اور ہر اور بادل
عمیق حنفی
دونوں کا ملنا مشکل ہے دونوں ہیں مجبور بہت
اس کے پاؤں میں مہندی لگی ہے میرے پاؤں میں چھالے ہیں
عمیق حنفی
ایک اسی کو دیکھ نہ پائے ورنہ شہر کی سڑکوں پر
اچھی اچھی پوشاکیں ہیں اچھی صورت والے ہیں
عمیق حنفی
خواہشوں کی بجلیوں کی جلتی بجھتی روشنی
کھینچتی ہے منظروں میں نقشۂ اعصاب سا
عمیق حنفی
پھول کھلے ہیں لکھا ہوا ہے توڑو مت
اور مچل کر جی کہتا ہے چھوڑو مت
عمیق حنفی
ان آنکھوں میں ڈال کر جب آنکھیں اس رات
میں ڈوبا تو مل گئے ڈوبے ہوئے جہاز
عمیق حنفی