کون ہے یہ مطلع تخئیل پر مہتاب سا
میری رگ رگ میں بپا ہونے لگا سیلاب سا
آگ کی لپٹوں میں ہے لپٹا ہوا سارا بدن
ہڈیوں کی نلکیوں میں بھر گیا تیزاب سا
خواہشوں کی بجلیوں کی جلتی بجھتی روشنی
کھینچتی ہے منظروں میں نقشۂ اعصاب سا
کس بلندی پر اڑا جاتا ہوں بر دوش ہوا
آسماں بھی اب نظر آنے لگا پایاب سا
تیرتا ہے ذہن یوں جیسے فضا میں کچھ نہیں
اور دل سینے میں ہے اک ماہی بے آب سا
غزل
کون ہے یہ مطلع تخئیل پر مہتاب سا
عمیق حنفی