EN हिंदी
بین ہوا کے ہاتھوں میں ہے لہرے جادو والے ہیں | شیح شیری
bin hawa ke hathon mein hai lahre jadu wale hain

غزل

بین ہوا کے ہاتھوں میں ہے لہرے جادو والے ہیں

عمیق حنفی

;

بین ہوا کے ہاتھوں میں ہے لہرے جادو والے ہیں
چندن سے چکنے شانوں پر مچل اٹھے دو کالے ہیں

جنگل کی یا بازاروں کی دھول اڑی ہے سواگت کو
ہم نے گھر کے باہر جب بھی اپنے پاؤں نکالے ہیں

کیسا زمانہ آیا ہے یہ الٹی ریت ہے الٹی بات
پھولوں کو کانٹے ڈستے ہیں جو ان کے رکھوالے ہیں

گھر کے دکھڑے شہر کے غم اور دیس بدیس کی چنتائیں
ان میں کچھ آوارہ کتے ہیں کچھ ہم نے پالے ہیں

ایک اسی کو دیکھ نہ پائے ورنہ شہر کی سڑکوں پر
اچھی اچھی پوشاکیں ہیں اچھی صورت والے ہیں

رات میں دل کو کیا سوجھی ہے اس کے گاؤں کو چلنے کی
جنگل میں چیتے رہتے ہیں راہ میں ندی نالے ہیں

دونوں کا ملنا مشکل ہے دونوں ہیں مجبور بہت
اس کے پاؤں میں مہندی لگی ہے میرے پاؤں میں چھالے ہیں