ساون آیا چھانے لگے گھور گھن گھور بادل
کرتے ہیں پھر دل کو پریشان چت چور بادل
جنگل جنگل سنکی ہوا بانس بن جھوم اٹھے
ناچے کودے گرجے مچانے لگے شور بادل
ڈھولک نقارے بانسری جھانجھنیں بج رہی ہیں
اس پر یہ ست رنگی دھنک بن گئے مور بادل
بجلی کا پہلو گدگدایا بھریں چٹکیاں بھی
جھوما جھٹکی کر کے دکھانے لگے زور بادل
دل میں دکھ آنکھوں میں نمی آسماں پر گھٹائیں
اندر باہر اس اور اس اور ہر اور بادل
غزل
ساون آیا چھانے لگے گھور گھن گھور بادل
عمیق حنفی