اے شاعر! تیرا درد بڑا اے شاعر! تیری سوچ بڑی
اے شاعر! تیرے سینے میں اس جیسا لاکھ بہے دریا
علی اکبر عباس
اپنا آپ نہیں ہے سب کچھ اپنے آپ سے نکلو
بدبوئیں پھیلا دیتا ہے پانی کا ٹھہراؤ
علی اکبر عباس
فریب ماہ و انجم سے نکل جائیں تو اچھا ہے
ذرا سورج نے کروٹ لی یہ تارے ڈوب جائیں گے
علی اکبر عباس
اک صدا کی صورت ہم اس ہوا میں زندہ ہیں
ہم جو روشنی ہوتے ہم پہ بھی جھپٹتی رات
علی اکبر عباس
کبھی سر پہ چڑھے کبھی سر سے گزرے کبھی پاؤں آن گرے دریا
کبھی مجھے بہا کر لے جائے کبھی مجھ میں آن بہے دریا
علی اکبر عباس
میں اپنے وقت میں اپنی ردا میں رہتا ہوں
اور اپنے خواب کی آب و ہوا میں رہتا ہوں
علی اکبر عباس
میں بھری سڑکوں پہ بھی بے چاپ چلنے لگ گیا
گھر میں سوئے لوگ میرے ذہن پر یوں چھا گئے
علی اکبر عباس
میں کھوئے جاتا ہوں تنہائیوں کی وسعت میں
در خیال در لا مکاں ہے یا کچھ اور
علی اکبر عباس
اسی پیڑ کے نیچے دفن بھی ہونا ہوگا
جس کی جڑ پر میں نے اپنا نام لکھا ہے
علی اکبر عباس