دیکھنے میں لگتی تھی بھیگتی سمٹتی رات
پھیلتی گئی لیکن بوند بوند بٹتی رات
تتلیاں پکڑنے کا آ گیا زمانہ یاد
تیز تیز بڑھتے ہم دور دور ہٹتی رات
کیوں پہاڑ جیسا دن خاک میں ملا ڈالا
پہلے سوچ لیتے تو گرد میں نہ اٹتی رات
پیار سے کیا رخصت ایک اک ستارے کو
چھا رہی پھر آنکھوں میں آسماں سے چھٹتی رات
اک صدا کی صورت ہم اس ہوا میں زندہ ہیں
ہم جو روشنی ہوتے ہم پہ بھی جھپٹتی رات
غزل
دیکھنے میں لگتی تھی بھیگتی سمٹتی رات
علی اکبر عباس