اندھیری بستیاں روشن منارے ڈوب جائیں گے
زمیں روتی رہی تو شہر سارے ڈوب جائیں گے
جھلس دیں گی جو صحرائی ہوائیں ریشمی سائے
دھوئیں کے زہر میں رنگیں نظارے ڈوب جائیں گے
ابھی سے کشتیاں سب ساحلوں کی سمت رخ موڑیں
کہ جب طوفان آیا پھر اشارے ڈوب جائیں گے
بڑھے گی ان کی لو کوئی اگر سینچے حرارت سے
برستی برف میں سارے شرارے ڈوب جائیں گے
یوں ہی پلتے رہے گر ہشت پا اس جھیل کی تہہ میں
کسی دن سطح پر ہنستے شکارے ڈوب جائیں گے
فریب ماہ و انجم سے نکل جائیں تو اچھا ہے
ذرا سورج نے کروٹ لی یہ تارے ڈوب جائیں گے
چٹانوں پر کریں کندہ نشانی اپنے ہونے کی
سنہرے کاغذوں کے گوشوارے ڈوب جائیں گے
غزل
اندھیری بستیاں روشن منارے ڈوب جائیں گے
علی اکبر عباس