کبھی سر پہ چڑھے کبھی سر سے گزرے کبھی پاؤں آن گرے دریا
کبھی مجھے بہا کر لے جائے کبھی مجھ میں آن بہے دریا
گاتا ہوں میرے سر میں سر مل جائے اس کی لہروں کا
میری آنکھ میں آنسو دیکھے تو پھر اپنی آنکھ بھرے دریا
میں اپنی اسے سناتا ہوں وہ اپنی مجھے سناتا ہے
میں چپ تو وہ بھی چپ ہے اور میں کہوں تو بات کہے دریا
کہیں برف لپیٹے بیٹھا ہے کہیں ریت بچھا کر لیٹا ہے
کبھی جنگل میں ڈیرا ڈالے کبھی بستی آن بسے دریا
اے دریا! تیرا پاٹ بڑا، اے دریا! تیرا زور بڑا
اے دریا! گم ہو کر تجھ میں قطرے کا نام پڑے دریا
اے شاعر! تیرا درد بڑا اے شاعر! تیری سوچ بڑی
اے شاعر! تیرے سینے میں اس جیسا لاکھ بہے دریا
غزل
کبھی سر پہ چڑھے کبھی سر سے گزرے کبھی پاؤں آن گرے دریا
علی اکبر عباس