بوسیدہ خدشات کا ملبہ دور کہیں دفناؤ
جسموں کی اس شہر پنہ میں تازہ شہر بساؤ
سارے جسم کا ریشہ ریشہ سوچ کی قوت پائے
پھر ہر سانس کا حاصل چاہے صدیوں پر پھیلاؤ
اپنا آپ نہیں ہے سب کچھ اپنے آپ سے نکلو
بدبوئیں پھیلا دیتا ہے پانی کا ٹھہراؤ
مدت سے کیوں چاٹ رہے ہو لفظوں کی دیواریں
سینے میں مخفی خاکوں کی واضح شکل بناؤ
اپنا اپنا کفن اتاریں لاشیں اڑتی جائیں
پیاسی زباں نکالے دھرتی چاٹے اپنے گھاؤ
غزل
بوسیدہ خدشات کا ملبہ دور کہیں دفناؤ
علی اکبر عباس