افسانہ محبت کا پورا ہو تو کیسے ہو
کچھ ہے دل قاتل تک کچھ ہے دل بسمل تک
علیم مسرور
انجام کشاکش ہوگا کچھ دیکھیں تو تماشا دیوانے
یا خاک اڑے گی گردوں پر یا فرش پہ تارے نکلیں گے
علیم مسرور
بھیڑ کے خوف سے پھر گھر کی طرف لوٹ آیا
گھر سے جب شہر میں تنہائی کے ڈر سے نکلا
علیم مسرور
جانے کیا محفل پروانہ میں دیکھا اس نے
پھر زباں کھل نہ سکی شمع جو خاموش ہوئی
علیم مسرور
نکلے تری محفل سے تو ساتھ نہ تھا کوئی
شاید مری رسوائی کچھ دور چلی ہوگی
علیم مسرور
اٹھ کے اس بزم سے آ جانا کچھ آسان نہ تھا
ایک دیوار سے نکلا ہوں جو در سے نکلا
علیم مسرور
زمانے کو دوں کیا کہ دامن میں میرے
فقط چند آنسو ہیں وہ بھی کسی کے
علیم مسرور