روح افسردہ طبیعت مری غم کوش ہوئی
زندگی اپنے ہی ماتم میں سیہ پوش ہوئی
فکر فردا ہوئی یا فکر غم دوش ہوئی
تیری یاد آئی کہ ہر بات فراموش ہوئی
صحبت شیخ ہوئی صحبت مے نوش ہوئی
جوش میں روح نہ پھر آئی جو مدہوش ہوئی
زندگی ان کے فسانوں سے بھی اکتا سی گئی
جو تھی سر تا بہ قدم گوش گراں گوش ہوئی
جانے کیا محفل پروانہ میں دیکھا اس نے
پھر زباں کھل نہ سکی شمع جو خاموش ہوئی
غزل
روح افسردہ طبیعت مری غم کوش ہوئی
علیم مسرور