گھبرائیں حوادث سے کیا ہم جینے کے سہارے نکلیں گے
ڈوبے گا اگر یہ سورج بھی تو چاند ستارے نکلیں گے
انداز زمانہ کہتا ہے پھر موج ہوا رخ بدلے گی
انگاروں سے گلشن پھوٹے گا شبنم سے شرارے نکلیں گے
فردوس نظر کے دیوانے تاریک فضا سے کیا ڈرنا
تو شمع نظر کو تیز تو کر ظلمت سے نظارے نکلیں گے
انجام کشاکش ہوگا کچھ دیکھیں تو تماشا دیوانے
یا خاک اڑے گی گردوں پر یا فرش پہ تارے نکلیں گے
مسرورؔ کریں اہل ساحل کچھ فکر نہ ہمت والوں کی
ڈوبیں گے سفینے جتنے بھی اک دن وہ کنارے نکلیں گے
غزل
گھبرائیں حوادث سے کیا ہم جینے کے سہارے نکلیں گے
علیم مسرور