EN हिंदी
گھبرائیں حوادث سے کیا ہم جینے کے سہارے نکلیں گے | شیح شیری
ghabraen hawadis se kya hum jine ke sahaare niklenge

غزل

گھبرائیں حوادث سے کیا ہم جینے کے سہارے نکلیں گے

علیم مسرور

;

گھبرائیں حوادث سے کیا ہم جینے کے سہارے نکلیں گے
ڈوبے گا اگر یہ سورج بھی تو چاند ستارے نکلیں گے

انداز زمانہ کہتا ہے پھر موج ہوا رخ بدلے گی
انگاروں سے گلشن پھوٹے گا شبنم سے شرارے نکلیں گے

فردوس نظر کے دیوانے تاریک فضا سے کیا ڈرنا
تو شمع نظر کو تیز تو کر ظلمت سے نظارے نکلیں گے

انجام کشاکش ہوگا کچھ دیکھیں تو تماشا دیوانے
یا خاک اڑے گی گردوں پر یا فرش پہ تارے نکلیں گے

مسرورؔ کریں اہل ساحل کچھ فکر نہ ہمت والوں کی
ڈوبیں گے سفینے جتنے بھی اک دن وہ کنارے نکلیں گے