اک راز غم دل جب خود رہ نہ سکا دل تک
ہونے دو یہ رسوائی تم تک ہو کہ محفل تک
افسانہ محبت کا پورا ہو تو کیسے ہو
کچھ ہے دل قاتل تک کچھ ہے دل بسمل تک
بس ایک نظر جس کی آتش زن محفل ہے
وہ برق مجسم ہے محدود مرے دل تک
یہ راہ محبت ہے سب اس میں برابر ہیں
بھٹکے ہوئے راہی سے خضر رہ منزل تک
ہے عزم جواں سب کچھ طوفان حوادث میں
ساحل کا بھروسہ کیا یہ جاتا ہے ساحل تک
غزل
اک راز غم دل جب خود رہ نہ سکا دل تک
علیم مسرور