اک جنوں کہیے اسے جو مرے سر سے نکلا
ورنہ مطلب نہ کوئی عرض ہنر سے نکلا
کوئی منزل نہ ملی پانو جو گھر سے نکلا
پھر سفر پیش تھا جب گرد سفر سے نکلا
بچ کے ہر چند زمانے کی نظر سے نکلا
سامنے کوئے ملامت تھا جدھر سے نکلا
میں بہت دور کہیں چھوڑ چکا تھا اس کو
قافلہ پھر مری حسرت کا کدھر سے نکلا
اٹھ کے اس بزم سے آ جانا کچھ آسان نہ تھا
ایک دیوار سے نکلا ہوں جو در سے نکلا
مے کدہ دیکھا تو یاد غم یاراں آئی
جام چھلکا تو لہو زخم جگر سے نکلا
بھیڑ کے خوف سے پھر گھر کی طرف لوٹ آیا
گھر سے جب شہر میں تنہائی کے ڈر سے نکلا
پڑ گیا وقت تو صدیوں کے بھرم ٹوٹ گئے
کام کچھ شام سے نکلا نہ سحر سے نکلا
غزل
اک جنوں کہیے اسے جو مرے سر سے نکلا
علیم مسرور