اک منتظر وعدہ کی شمع جلی ہوگی
سورج کے نکلنے سے کیا رات ڈھلی ہوگی
بتلائیں ٹھکانا کیا چھٹے ہوئے گلشن میں
گزرو گے تو دیکھو گے اک شاخ جلی ہوگی
بس ایک تمنا ہو جس کے دل ویراں میں
سوچو تو ذرا کتنے نازوں کی پلی ہوگی
نکلے تری محفل سے تو ساتھ نہ تھا کوئی
شاید مری رسوائی کچھ دور چلی ہوگی
کل رات جو میں گزرا اک نور کا تڑکا تھا
مسرورؔ بتاؤ تو وہ کس کی گلی ہوگی
غزل
اک منتظر وعدہ کی شمع جلی ہوگی
علیم مسرور