اب تجھے میرا نام یاد نہیں
جب کہ تیرا پتا رہا ہوں میں
اکبر معصوم
ایسا ایک مقام ہو جس میں دل جیسی ویرانی ہو
یادوں جیسی تیز ہوا ہو درد سے گہرا پانی ہو
اکبر معصوم
ہے مصیبت میں گرفتار مصیبت میری
جو بھی مشکل ہے وہ میرے لیے آسانی ہے
اکبر معصوم
جس کے بغیر جی نہیں سکتے تھے جا چکا
پر دل سے درد آنکھ سے آنسو کہاں گیا
اکبر معصوم
میں کسی اور ہی عالم کا مکیں ہوں پیارے
میرے جنگل کی طرح گھر بھی ہے سنسان مرا
اکبر معصوم
رہ جائے گی یہ ساری کہانی یہیں دھری
اک روز جب میں اپنے فسانے میں جاؤں گا
اکبر معصوم
ترے غرور کی عصمت دری پہ نادم ہوں
ترے لہو سے بھی دامن ہے داغ دار مرا
اکبر معصوم
اجالا ہے جو یہ کون و مکاں میں
ہماری خاک سے لایا گیا ہے
اکبر معصوم
وہ اور ہوں گے جو کار ہوس پہ زندہ ہیں
میں اس کی دھوپ سے سایہ بدل کے آیا ہوں
اکبر معصوم