EN हिंदी
ایسا ایک مقام ہو جس میں دل جیسی ویرانی ہو | شیح شیری
aisa ek maqam ho jis mein dil jaisi virani ho

غزل

ایسا ایک مقام ہو جس میں دل جیسی ویرانی ہو

اکبر معصوم

;

ایسا ایک مقام ہو جس میں دل جیسی ویرانی ہو
یادوں جیسی تیز ہوا ہو درد سے گہرا پانی ہو

ایک ستارہ روشن ہو جو کبھی نہ بجھنے والا ہو
رستہ جانا پہچانا ہو رات بہت انجانی ہو

وہ اک پل جو بیت گیا اس میں ہی رہیں تو اچھا ہے
کیا معلوم جو پل آئے وہ فانی ہو لافانی ہو

منظر دیکھنے والا ہو پر کوئی نہ دیکھنے والا ہو
کوئی نہ دیکھنے والا ہو اور دور تلک حیرانی ہو

ایک عجیب سماں ہو جیسے شعر منیرؔ نیازی کا
ایک طرف آبادی ہو اور ایک طرف ویرانی ہو