ایسا ایک مقام ہو جس میں دل جیسی ویرانی ہو
یادوں جیسی تیز ہوا ہو درد سے گہرا پانی ہو
ایک ستارہ روشن ہو جو کبھی نہ بجھنے والا ہو
رستہ جانا پہچانا ہو رات بہت انجانی ہو
وہ اک پل جو بیت گیا اس میں ہی رہیں تو اچھا ہے
کیا معلوم جو پل آئے وہ فانی ہو لافانی ہو
منظر دیکھنے والا ہو پر کوئی نہ دیکھنے والا ہو
کوئی نہ دیکھنے والا ہو اور دور تلک حیرانی ہو
ایک عجیب سماں ہو جیسے شعر منیرؔ نیازی کا
ایک طرف آبادی ہو اور ایک طرف ویرانی ہو
غزل
ایسا ایک مقام ہو جس میں دل جیسی ویرانی ہو
اکبر معصوم