نیند میں گنگنا رہا ہوں میں
خواب کی دھن بنا رہا ہوں میں
ایک مدت سے باغ دنیا کا
اپنے دل میں لگا رہا ہوں میں
کیا بتاؤں تمہیں وہ شہر تھا کیا
جس کی آب و ہوا رہا ہوں میں
اب تجھے میرا نام یاد نہیں
جب کہ تیرا پتا رہا ہوں میں
آج کل تو کسی سدا کی طرح
اپنے اندر سے آ رہا ہوں میں
ایسا مردہ تھا میں کہ جینے کے
خوف میں مبتلا رہا ہوں میں
غزل
نیند میں گنگنا رہا ہوں میں
اکبر معصوم