EN हिंदी
یہ گل جس خاک سے لایا گیا ہے | شیح شیری
ye gul jis KHak se laya gaya hai

غزل

یہ گل جس خاک سے لایا گیا ہے

اکبر معصوم

;

یہ گل جس خاک سے لایا گیا ہے
اسے افلاک سے لایا گیا ہے

چمن پہ رنگ آتا ہی نہیں تھا
تری پوشاک سے لایا گیا ہے

یہ دل جس سے میں شرمندہ بہت ہوں
اسی بے باک سے لایا گیا ہے

اجالا ہے جو یہ کون و مکاں میں
ہماری خاک سے لایا گیا ہے

یہ جو کچھ بھی ہے آیا ہے کہاں سے
دل صد چاک سے لایا گیا ہے

یہاں کتنوں نے دیکھا ہے جو طوفاں
خس و خاشاک سے لایا گیا ہے