سن! ہجر اور وصال کا جادو کہاں گیا
میں تو کہیں نہیں تھا مگر تو کہاں گیا
جب خیمۂ خیال میں تصویر ہے وہی
وہ دشت نا مراد وہ آہو کہاں گیا
بستر پہ گر رہی ہے سیہ آسماں سے راکھ
وہ چاندنی کہاں ہے وہ مہ رو کہاں گیا
جس کے بغیر جی نہیں سکتے تھے جا چکا
پر دل سے درد آنکھ سے آنسو کہاں گیا
پھر خاک اڑ رہی ہے مکان وجود میں
اے جان بے قرار وہ دل جو کہاں گیا
غزل
سن! ہجر اور وصال کا جادو کہاں گیا
اکبر معصوم