اس خوش ادا کے آئنہ خانے میں جاؤں گا
پھر لوٹ کر میں اپنے زمانے میں جاؤں گا
رہ جائے گی یہ ساری کہانی یہیں دھری
اک روز جب میں اپنے فسانے میں جاؤں گا
یہ صبح و شام یوں ہی رہیں گے مرے چراغ
بس میں تجھے جلانے بجھانے میں جاؤں گا
یہ کھیل ہے تو خوب مگر تیرے ہاتھ سے
اس ٹوٹنے بگڑنے بنانے میں جاؤں گا
یوں ہی میں خود کو خواب دکھانے میں آ گیا
یوں ہی میں خود کو خواب دکھانے میں جاؤں گا
غزل
اس خوش ادا کے آئنہ خانے میں جاؤں گا
اکبر معصوم