EN हिंदी
یہ ساری دھول مری ہے یہ سب غبار مرا | شیح شیری
ye sari dhul meri hai ye sab ghubar mera

غزل

یہ ساری دھول مری ہے یہ سب غبار مرا

اکبر معصوم

;

یہ ساری دھول مری ہے یہ سب غبار مرا
گزر ہے تیرے خرابے سے بار بار مرا

خزاں تو کیا نہیں جس کی بہار کو بھی خبر
اک ایسے باغ کے اندر ہے برگ و بار مرا

ہے دل کے نغمہ و نالہ سے اب گریز مجھے
ملا ہوا ہے کسی اور لے سے تار مرا

میں خوش ہوں نان و نمک پر تو اس کی داد نہ دے
کہ بھیک مانگتا پھرتا ہے شہریار مرا

ترے غرور کی عصمت دری پہ نادم ہوں
ترے لہو سے بھی دامن ہے داغ دار مرا