یہ ساری دھول مری ہے یہ سب غبار مرا
گزر ہے تیرے خرابے سے بار بار مرا
خزاں تو کیا نہیں جس کی بہار کو بھی خبر
اک ایسے باغ کے اندر ہے برگ و بار مرا
ہے دل کے نغمہ و نالہ سے اب گریز مجھے
ملا ہوا ہے کسی اور لے سے تار مرا
میں خوش ہوں نان و نمک پر تو اس کی داد نہ دے
کہ بھیک مانگتا پھرتا ہے شہریار مرا
ترے غرور کی عصمت دری پہ نادم ہوں
ترے لہو سے بھی دامن ہے داغ دار مرا
غزل
یہ ساری دھول مری ہے یہ سب غبار مرا
اکبر معصوم