EN हिंदी
خواب آرام نہیں خواب پریشانی ہے | شیح شیری
KHwab aaram nahin KHwab pareshani hai

غزل

خواب آرام نہیں خواب پریشانی ہے

اکبر معصوم

;

خواب آرام نہیں خواب پریشانی ہے
میرے بستر میں اذیت کی فراوانی ہے

مجھ کو تو وہ بھی ہے معلوم جو معلوم نہیں
یہ سمجھ بوجھ نہیں ہے مری نادانی ہے

کچھ اسے سوچنے دیتا ہی نہیں اپنے سوا
میرا محبوب تو میرے لیے زندانی ہے

ہے مصیبت میں گرفتار مصیبت میری
جو بھی مشکل ہے وہ میرے لیے آسانی ہے

موجۂ مے ہے بہت میرے سکوں پر بے تاب
ضبط گریہ سے مرے جام میں طغیانی ہے

میں گنہ گار تمنا ہوں مجھے قتل کرو
دل تو ہارا ہے مگر ہار نہیں مانی ہے