خواب آرام نہیں خواب پریشانی ہے
میرے بستر میں اذیت کی فراوانی ہے
مجھ کو تو وہ بھی ہے معلوم جو معلوم نہیں
یہ سمجھ بوجھ نہیں ہے مری نادانی ہے
کچھ اسے سوچنے دیتا ہی نہیں اپنے سوا
میرا محبوب تو میرے لیے زندانی ہے
ہے مصیبت میں گرفتار مصیبت میری
جو بھی مشکل ہے وہ میرے لیے آسانی ہے
موجۂ مے ہے بہت میرے سکوں پر بے تاب
ضبط گریہ سے مرے جام میں طغیانی ہے
میں گنہ گار تمنا ہوں مجھے قتل کرو
دل تو ہارا ہے مگر ہار نہیں مانی ہے
غزل
خواب آرام نہیں خواب پریشانی ہے
اکبر معصوم