EN हिंदी
اکبر حمیدی شیاری | شیح شیری

اکبر حمیدی شیر

18 شیر

ابھی زمین کو ہفت آسماں بنانا ہے
اسی جہاں کو مجھے دو جہاں بنانا ہے

اکبر حمیدی




ایسے حالات میں اک روز نہ جی سکتے تھے
ہم کو زندہ ترے پیمان وفا نے رکھا

اکبر حمیدی




فن کار بضد ہے کہ لگائے گا نمائش
میں ہوں کہ ہر اک زخم چھپانے میں لگا ہوں

اکبر حمیدی




گو راہزن کا وار بھی کچھ کم نہ تھا مگر
جو وار کارگر ہوا وہ رہنما کا تھا

اکبر حمیدی




ہوا سہلا رہی ہے اس کے تن کو
وہ شعلہ اب شرارے دے رہا ہے

اکبر حمیدی




ہو بہ ہو آپ ہی کی مورت ہے
زندگی کتنی خوبصورت ہے

اکبر حمیدی




جل کر گرا ہوں سوکھے شجر سے اڑا نہیں
میں نے وہی کیا جو تقاضا وفا کا تھا

اکبر حمیدی




کئی حرفوں سے مل کر بن رہا ہوں
بجائے لفظ کے الفاظ ہوں میں

اکبر حمیدی




کبھی جو وقت زمانے کو دیتا ہے گردش
مرے مکاں سے بھی کچھ لا مکاں گزرتے ہیں

اکبر حمیدی