ابھی زمین کو ہفت آسماں بنانا ہے
اسی جہاں کو مجھے دو جہاں بنانا ہے
بھٹک رہا ہے اکیلا جو کوہ و صحرا میں
اس ایک آدمی کو کارواں بنانا ہے
یہ شاخ گل جو گھری ہے ہزار کانٹوں میں
مجھے اسی سے نیا گلستاں بنانا ہے
میں جانتا ہوں مجھے کیا بنانا ہے لیکن
وہاں بنانے سے پہلے یہاں بنانا ہے
چراغ لے کے اسے شہر شہر ڈھونڈھتا ہوں
بس ایک شخص مجھے راز داں بنانا ہے
ہمیں بھی عمر گزاری تو کرنی ہے اکبرؔ
انہیں بھی مشغلۂ دلبراں بنانا ہے
غزل
ابھی زمین کو ہفت آسماں بنانا ہے
اکبر حمیدی