EN हिंदी
رات آئی ہے بچوں کو پڑھانے میں لگا ہوں | شیح شیری
raat aai hai bachchon ko paDhane mein laga hun

غزل

رات آئی ہے بچوں کو پڑھانے میں لگا ہوں

اکبر حمیدی

;

رات آئی ہے بچوں کو پڑھانے میں لگا ہوں
خود جو نہ بنا ان کو بنانے میں لگا ہوں

وہ شخص تو رگ رگ میں مری گونج رہا ہے
برسوں سے گلا جس کا دبانے میں لگا ہوں

اترا ہوں دیا لے کے نہاں خانۂ جاں میں
سوئے سوئے آسیب جگانے میں لگا ہوں

پتھر ہوں تو شیشے سے مجھے کام پڑا ہے
شیشہ ہوں تو پتھر کے زمانے میں لگا ہوں

فن کار بضد ہے کہ لگائے گا نمائش
میں ہوں کہ ہر اک زخم چھپانے میں لگا ہوں

کچھ پڑھنا ہے کچھ لکھنا ہے کچھ رونا ہے شب کو
میں کام سر شام چکانے میں لگا ہوں

ایسے میں تو اب صبر بھی مشکل ہوا اکبرؔ
سب کہتے ہیں میں اس کو بھلانے میں لگا ہوں