EN हिंदी
نام اکبرؔ تو مرا ماں کی دعا نے رکھا | شیح شیری
nam akbar to mera man ki dua ne rakkha

غزل

نام اکبرؔ تو مرا ماں کی دعا نے رکھا

اکبر حمیدی

;

نام اکبرؔ تو مرا ماں کی دعا نے رکھا
ہاں بھرم اس کا مگر میرے خدا نے رکھا

وہ بھی دن تھا کہ ترے آنے کا پیغام آیا
تب مرے گھر میں قدم باد صبا نے رکھا

کس طرح لوگوں نے مانگیں تھیں دعائیں اس کی
کچھ لحاظ اس کا نہ بے مہر ہوا نے رکھا

ایسے حالات میں اک روز نہ جی سکتے تھے
ہم کو زندہ ترے پیمان وفا نے رکھا

اتفاقات کے پیچھے بھی ہیں اسباب و علل
اک نہ اک اپنا سبب دست قضا نے رکھا

جس نے رکھا تری مٹتی ہوئی قدروں کا لحاظ
کچھ خیال اس کا نہیں تو نے زمانے رکھا

صرف اکبرؔ ہی نہیں دیکھ کے تصویر ہوا
سب کو حیراں ترے نقش کف پا نے رکھا