آغاز محبت میں عاجزؔ رکتی نہ تھی موج اشک رواں
انجام اب ان خشک آنکھوں سے اک اشک نکلنا مشکل ہے
عاجز ماتوی
ایک ہم ہیں ہم نے کشتی ڈال دی گرداب میں
ایک تم ہو ڈرتے ہو آتے ہوئے ساحل کے پاس
عاجز ماتوی
حسرتیں آ آ کے جمع ہو رہی ہیں دل کے پاس
کارواں گویا پہنچنے والا ہے منزل کے پاس
عاجز ماتوی
ہو بجلیوں کا مجھ سے جہاں پر مقابلہ
یارب وہیں چمن میں مجھے آشیانہ دے
عاجز ماتوی
ہوتا ہے محسوس یہ عاجزؔ شاید اس نے دستک دی
تیز ہوا کے جھونکے جب دروازے سے ٹکراتے ہیں
عاجز ماتوی
انسان حادثات سے کتنا قریب ہے
تو بھی ذرا نکل کے کبھی اپنے گھر سے دیکھ
عاجز ماتوی
محو حیرت ہوں خراش دست غم کو دیکھ کر
زخم چہرے پر ہیں یا ہے آئینہ ٹوٹا ہوا
عاجز ماتوی
میں جن کو اپنا کہتا ہوں کب وہ مرے کام آتے ہیں
یہ سارا سنسار ہے سپنا سب جھوٹے رشتے ناطے ہیں
عاجز ماتوی
منتظر ہوں میں کفن باندھ کے سر سے عاجزؔ
سامنے سے کوئی خنجر نہیں آیا اب تک
عاجز ماتوی