ہنگامہ کیوں بپا ہے ذرا بام پر سے دیکھ
شعلے بلند ہوتے ہیں یہ کس کے گھر سے دیکھ
بکھریں نہ یہ زمیں پہ کہیں چشم تر سے دیکھ
پلکوں تک آ گئے ہیں جو چل کر جگر سے دیکھ
اے دوست پیرویٔ کلیمانہ ہے عبث
جلووں کو اس کے تو نگہۂ معتبر سے دیکھ
یوں سر اٹھا کے دیکھ نہ تو جانب فلک
یہ تاج تمکنت نہ گرے تیرے سر سے دیکھ
اس طرح ہے غموں کو مرے دل سے رسم و راہ
جس طرح ربط رکھتے ہیں سائے شجر کے دیکھ
اپنی نظر سے دیکھ تہی دستیٔ صدف
دریا کا ظرف کیا ہے یہ چشم گہر سے دیکھ
انسان حادثات سے کتنا قریب ہے
تو بھی ذرا نکل کے کبھی اپنے گھر سے دیکھ
عاجزؔ یہ قول اپنے بزرگوں کا یاد رکھ
رستہ کبھی نہ چھوڑنا دشمن کے ڈر سے دیکھ

غزل
ہنگامہ کیوں بپا ہے ذرا بام پر سے دیکھ
عاجز ماتوی