حسرتیں آ آ کے جمع ہو رہی ہیں دل کے پاس
کارواں گویا پہنچنے والا ہے منزل کے پاس
بیچ میں جب تک تھیں موجیں ان میں شورش تھی بہت
انتشار ان میں ہوا جب آ گئیں ساحل کے پاس
نذر قاتل جان جب کر دی تو باقی کیا رہا
اب تڑپنے کے علاوہ ہے ہی کیا بسمل کے پاس
غرق کر دیں میری کشتی پھر یہ موجیں دیکھنا
حشر تک پٹکا کریں گی اپنا سر ساحل کے پاس
بھیک دینا تو کجا کاسہ بھی اس نے لے لیا
میں اب اک حسرت زدہ ہوں کیا ہے مجھ سائل کے پاس
ایک ہم ہیں ہم نے کشتی ڈال دی گرداب میں
ایک تم ہو ڈرتے ہو آتے ہوئے ساحل کے پاس
خیر ہو عاجزؔ کہیں ایسا نہ ہو دل ڈوب جائے
عشق کے دریا میں ہلچل ہو رہی ہے دل کے پاس
غزل
حسرتیں آ آ کے جمع ہو رہی ہیں دل کے پاس
عاجز ماتوی