یوں تجھ سے دور دور رہوں یہ سزا نہ دے
اب اور زندہ رہنے کی مجھ کو دعا نہ دے
اب احتیاط شدت گریہ نہ پوچھئے
ڈرتا ہوں میں وہ سن کے کہیں مسکرا نہ دے
لو میں نے دل کی اس سے لگائی تو ہے مگر
ڈر ہے یہ شمع غم کہیں دامن جلا نہ دے
کہنا تو ہے مجھے بھی حدیث غم حیات
لب کھولنے کی کاش اجازت زمانہ دے
ہو بجلیوں کا مجھ سے جہاں پر مقابلہ
یارب وہیں چمن میں مجھے آشیانہ دے
اس دینے والے کے یہاں کس شے کی ہے کمی
تم مانگنے کی طرح جو مانگو تو کیا نہ دے
حساس میں بہت ہوں نہ لگ جائے دل کو ٹھیس
محفل میں مسکرا کے مجھے یوں صدا نہ دے
میں آشنائے درد و غم دل ہوں چارہ گر
جس سے افاقہ ہو مجھے ایسی دوا نہ دے
عاجزؔ تمام عمر میں کھاتا رہا فریب
مجھ کو مری وفاؤں کا ایسا صلہ نہ دے
غزل
یوں تجھ سے دور دور رہوں یہ سزا نہ دے
عاجز ماتوی