موجود ہیں وہ بھی بالیں پر اب موت کا ٹلنا مشکل ہے
اک طرفہ کشاکش نزع میں ہے دم کا بھی نکلنا مشکل ہے
ان جانے میں جو بے راہ چلے وہ راہ پہ آ سکتا ہے مگر
بے راہ چلے جو دانستہ بس اس کا سنبھلنا مشکل ہے
ظاہر نہ سہی در پردہ سہی دشمن بھی حفاظت کرتے ہیں
کانٹے ہوں نگہباں جس گل کے اس گل کا مسلنا مشکل ہے
ہیں عشق کی راہیں پیچیدہ منزل پہ پہنچنا سہل نہیں
رستے میں اگر دل بیٹھ گیا پھر اس کا سنبھلنا مشکل ہے
آغاز محبت میں عاجزؔ رکتی نہ تھی موج اشک رواں
انجام اب ان خشک آنکھوں سے اک اشک نکلنا مشکل ہے
غزل
موجود ہیں وہ بھی بالیں پر اب موت کا ٹلنا مشکل ہے
عاجز ماتوی