EN हिंदी
احمد خیال شیاری | شیح شیری

احمد خیال شیر

19 شیر

عین ممکن ہے کہ بینائی مجھے دھوکہ دے
یہ جو شبنم ہے شرارہ بھی تو ہو سکتا ہے

احمد خیال




بس چند لمحے پیشتر وہ پاؤں دھو کے پلٹا ہے
اور نور کا سیلاب سا اس آب جو میں آ گیا

احمد خیال




دشت میں وادئ شاداب کو چھو کر آیا
میں کھلی آنکھ حسیں خواب کو چھو کر آیا

احمد خیال




دل کسی بزم میں جاتے ہی مچلتا ہے خیالؔ
سو طبیعت کہیں بے زار نہیں بھی ہوتی

احمد خیال




ہوا کے ہاتھ پہ چھالے ہیں آج تک موجود
مرے چراغ کی لو میں کمال ایسا تھا

احمد خیال




کسی درویش کے حجرے سے ابھی آیا ہوں
سو ترے حکم کی تعمیل نہیں کرنی مجھے

احمد خیال




کوئی حیرت ہے نہ اس بات کا رونا ہے ہمیں
خاک سے اٹھے ہیں سو خاک ہی ہونا ہے ہمیں

احمد خیال




کوئی تو دشت سمندر میں ڈھل گیا آخر
کسی کے ہجر میں رو رو کے بھر گیا تھا میں

احمد خیال




مہکتے پھول ستارے دمکتا چاند دھنک
ترے جمال سے کتنوں نے استفادہ کیا

احمد خیال