ہر ایک رنگ دھنک کی مثال ایسا تھا
شب وصال تمھارا جمال ایسا تھا
ہوا کے ہاتھ پہ چھالے ہیں آج تک موجود
مرے چراغ کی لو میں کمال ایسا تھا
میں چل پڑا ہوں اندھیرے کی انگلیاں تھامے
اترتی شام کے رخ کا جمال ایسا تھا
ذرا سی دیر بھی ٹھہرا نہیں ہوں موجوں میں
سمے کے بحر میں اب کے اچھال ایسا تھا
وہ سر اٹھائے یہاں سے پلٹ گیا احمدؔ
میں سر جھکائے کھڑا ہوں سوال ایسا تھا
غزل
ہر ایک رنگ دھنک کی مثال ایسا تھا
احمد خیال