EN हिंदी
ہر ایک رنگ دھنک کی مثال ایسا تھا | شیح شیری
har ek rang dhanak ki misal aisa tha

غزل

ہر ایک رنگ دھنک کی مثال ایسا تھا

احمد خیال

;

ہر ایک رنگ دھنک کی مثال ایسا تھا
شب وصال تمھارا جمال ایسا تھا

ہوا کے ہاتھ پہ چھالے ہیں آج تک موجود
مرے چراغ کی لو میں کمال ایسا تھا

میں چل پڑا ہوں اندھیرے کی انگلیاں تھامے
اترتی شام کے رخ کا جمال ایسا تھا

ذرا سی دیر بھی ٹھہرا نہیں ہوں موجوں میں
سمے کے بحر میں اب کے اچھال ایسا تھا

وہ سر اٹھائے یہاں سے پلٹ گیا احمدؔ
میں سر جھکائے کھڑا ہوں سوال ایسا تھا