جیسی ہونی ہو وہ رفتار نہیں بھی ہوتی
راہ اس سمت کی ہموار نہیں بھی ہوتی
میں تہی دست لڑائی کے ہنر سیکھتا ہوں
کبھی اس ہاتھ میں تلوار نہیں بھی ہوتی
پھر بھی ہم لوگ تھے رسموں میں عقیدوں میں جدا
گر یہاں بیچ میں دیوار نہیں بھی ہوتی
وہ مری ذات سے انکار کیے رکھتا ہے
گر کبھی صورت انکار نہیں بھی ہوتی
جس کو بے کار سمجھ کر کسی کونے میں رکھیں
ایسا ہوتا ہے کہ بے کار نہیں بھی ہوتی
دل کسی بزم میں جاتے ہی مچلتا ہے خیالؔ
سو طبیعت کہیں بے زار نہیں بھی ہوتی
غزل
جیسی ہونی ہو وہ رفتار نہیں بھی ہوتی
احمد خیال