دشت و جنوں کا سلسلہ میرے لہو میں آ گیا
یہ کس جگہ پہ میں تمہاری جستجو میں آ گیا
وہ سرو قامت ہو گیا ہے دیکھتے ہی دیکھتے
جانے کہاں سے زور سا اس کی نمو میں آ گیا
بس چند لمحے پیشتر وہ پاؤں دھو کے پلٹا ہے
اور نور کا سیلاب سا اس آب جو میں آ گیا
چاروں طرف ہی تتلیوں کے رقص ہونے لگ گئے
تو آ گیا تو باغ سارا رنگ و بو میں آ گیا
میں جھومتے ہی جھومتے احمدؔ تماشا بن گیا
جب عکس اس کے رقص کا میرے سبو میں آ گیا
غزل
دشت و جنوں کا سلسلہ میرے لہو میں آ گیا
احمد خیال