EN हिंदी
دست بستوں کو اشارہ بھی تو ہو سکتا ہے | شیح شیری
dast-baston ko ishaara bhi to ho sakta hai

غزل

دست بستوں کو اشارہ بھی تو ہو سکتا ہے

احمد خیال

;

دست بستوں کو اشارہ بھی تو ہو سکتا ہے
اب وہی شخص ہمارا بھی تو ہو سکتا ہے

میں یہ ایسے ہی نہیں چھان رہا ہوں اب تک
خاک میں کوئی ستارہ بھی تو ہو سکتا ہے

عین ممکن ہے کہ بینائی مجھے دھوکہ دے
یہ جو شبنم ہے شرارہ بھی تو ہو سکتا ہے

اس محبت میں ہر اک شے بھی تو لٹ سکتی ہے
اس محبت میں خسارہ بھی تو ہو سکتا ہے

گر ہے سانسوں کا تسلسل مری قسمت میں خیالؔ
پھر یہ گرداب کنارا بھی تو ہو سکتا ہے