زندگی خوف سے تشکیل نہیں کرنی مجھے
رات سے ذات کی تکمیل نہیں کرنی مجھے
کسی درویش کے حجرے سے ابھی آیا ہوں
سو ترے حکم کی تعمیل نہیں کرنی مجھے
چھوڑ دی دشت نوردی بھی زیاں کاری بھی
زندگی اب تری تذلیل نہیں کرنی مجھے
دل کے بازار میں زنجیر زنی ہونی نہیں
آنکھ بھی آنکھ رہے جھیل نہیں کرنی مجھے
میں کہ الحاد کے گرداب میں آیا ہوا ہوں
اب کسی علم کی تحصیل نہیں کرنی مجھے
لڑتے رہنا ہے تسلسل سے مجھے صبح تلک
اور تلوار بھی تبدیل نہیں کرنی مجھے
غزل
زندگی خوف سے تشکیل نہیں کرنی مجھے
احمد خیال