چاہئے ہے مجھے انکار محبت مرے دوست
لیکن اس میں ترا انکار نہیں چاہئے ہے
احمد کامران
چند پیڑوں کو ہی مجنوں کی دعا ہوتی ہے
سب درختوں پہ تو پتھر نہیں آیا کرتا
احمد کامران
اک پل کا توقف بھی گراں بار ہے تجھ پر
اور ہم کہ تھکے ہارے مسافت سے گریزاں
احمد کامران
کرۂ ہجر سے ہونا ہے نمودار مجھے
میں ترے عشق کا انکار اٹھانے لگا ہوں
احمد کامران
مری وفا ہے مرے منہ پہ ہاتھ رکھے ہوئے
تو سوچتا ہے کہ کچھ بھی نہیں سمجھتا میں
احمد کامران
مجھ پہ تصویر لگا دی گئی ہے
کیا میں دیوار دکھائی دیا ہوں
احمد کامران
پاؤں باندھے ہیں وفا سے جب نے
تیز رفتار دکھائی دیا ہوں
احمد کامران
راس آئے گی محبت اس کو
جس سے ہوتے نہیں وعدے پورے
احمد کامران
تو نے اے عشق یہ سوچا کہ ترا کیا ہوگا
تیرے سر سے میں اگر ہاتھ اٹھا لیتا ہوں
احمد کامران