مٹی سے بغاوت نہ بغاوت سے گریزاں
ہم سہمے ہوئے لوگ ہیں ہمت سے گریزاں
اک پل کا توقف بھی گراں بار ہے تجھ پر
اور ہم کہ تھکے ہارے مسافت سے گریزاں
اے بھولے ہوئے ہجر کہیں مل تو سہی یار
اک دوجے سے ہم دونوں ہیں مدت سے گریزاں
جا تجھ کو کوئی جسم سے آگے نہ پڑھے گا
اے مجھ سے خفا میری محبت سے گریزاں
اے زندہ بچے شخص یہ سب لے کے پلٹ جا
ہم جنگ میں ہیں مال غنیمت سے گریزاں
غزل
مٹی سے بغاوت نہ بغاوت سے گریزاں
احمد کامران