EN हिंदी
یہ جو بیدار دکھائی دیا ہوں | شیح شیری
ye jo bedar dikhai diya hun

غزل

یہ جو بیدار دکھائی دیا ہوں

احمد کامران

;

یہ جو بیدار دکھائی دیا ہوں
آخری بار دکھائی دیا ہوں

وہاں مشکل تھا سنائی دیتا
شکر ہے یار دکھائی دیا ہوں

آ حراست سے چھڑا ہجراں کو
میں گرفتار دکھائی دیا ہوں

پاؤں باندھے ہیں وفا سے جب نے
تیز رفتار دکھائی دیا ہوں

جھیل میں چاند گرا تھا اور میں
جھیل کے پار دکھائی دیا ہوں

مجھ پہ تصویر لگا دی گئی ہے
کیا میں دیوار دکھائی دیا ہوں

جانتا خود کو نہیں ہوں احمدؔ
خود کو بیکار دکھائی دیا ہوں