EN हिंदी
خواب یوں ہی نہیں ہوتے پورے | شیح شیری
KHwab yun hi nahin hote pure

غزل

خواب یوں ہی نہیں ہوتے پورے

احمد کامران

;

خواب یوں ہی نہیں ہوتے پورے
جان و تن لگتے ہیں پورے پورے

راس آئے گی محبت اس کو
جس سے ہوتے نہیں وعدے پورے

چھوڑ آئے ترے حصے کے دوست
ہم نے منظر نہیں دیکھے پورے

گفتگو ہوش ربا ہے اس کی
اس کی باتیں ہیں صحیفے پورے

ہجر اور رات تقابل میں ہیں
اشک پورے کہ ستارے پورے

یاد ہوں آدھا سا خود کو احمدؔ
نقش آئینے میں کب تھے پورے