EN हिंदी
تو زیادہ میں سے باہر نہیں آیا کرتا | شیح شیری
tu ziyaada mein se bahar nahin aaya karta

غزل

تو زیادہ میں سے باہر نہیں آیا کرتا

احمد کامران

;

تو زیادہ میں سے باہر نہیں آیا کرتا
میں زیادہ کو میسر نہیں آیا کرتا

میں ترا وقت ہوں اور روٹھ کے جانے لگا ہوں
روک لے یار میں جا کر نہیں آیا کرتا

اے پلٹ آنے کی خواہش یہ ذرا دھیان میں رکھ
جنگ سے کوئی برابر نہیں آیا کرتا

چند پیڑوں کو ہی مجنوں کی دعا ہوتی ہے
سب درختوں پہ تو پتھر نہیں آیا کرتا

اب مجاور بھی قلندر سے بڑے ہو گئے ہیں
اب مزاروں پہ کبوتر نہیں آیا کرتا