تو زیادہ میں سے باہر نہیں آیا کرتا
میں زیادہ کو میسر نہیں آیا کرتا
میں ترا وقت ہوں اور روٹھ کے جانے لگا ہوں
روک لے یار میں جا کر نہیں آیا کرتا
اے پلٹ آنے کی خواہش یہ ذرا دھیان میں رکھ
جنگ سے کوئی برابر نہیں آیا کرتا
چند پیڑوں کو ہی مجنوں کی دعا ہوتی ہے
سب درختوں پہ تو پتھر نہیں آیا کرتا
اب مجاور بھی قلندر سے بڑے ہو گئے ہیں
اب مزاروں پہ کبوتر نہیں آیا کرتا
غزل
تو زیادہ میں سے باہر نہیں آیا کرتا
احمد کامران