آہن و سنگ کو زہراب فنا چاٹ گیا
پہلے دیوار شکستہ ہوئی پھر باب گرا
احمد عظیم
اے شام ہجر یار مری تو گواہی دے
میں تیرے ساتھ ساتھ رہا گھر نہیں گیا
احمد عظیم
بازار آرزو میں کٹی جا رہی ہے عمر
ہم کو خرید لے وہ خریدار چاہئے
احمد عظیم
دھند میں کھو کے رہ گئیں صورتیں مہر و ماہ سی
وقت کی گرد نے انہیں خواب و خیال کر دیا
احمد عظیم
اسی لیے تو ہار کا ہوا نہیں ملال تک
وہ میرے ساتھ ساتھ تھا عروج سے زوال تک
احمد عظیم
کیا ڈھونڈنے نکلی ہے کسی قیس کو پاگل
اس درجہ جو یہ باد بیابانی ہوئی ہے
احمد عظیم
سڑک کے پار چلا جا رہا ہے بچتا ہوا
کسی کا ہاتھ کوئی مہربان تھامے ہوئے
احمد عظیم
سب معجزوں کے باب میں یہ معجزہ بھی ہو
جو لوگ مر گئے ہیں انہیں خاک سے اٹھا
احمد عظیم
تو نے بھی سارے زخم کسی طور سہ لیے
میں بھی بچھڑ کے جی ہی لیا مر نہیں گیا
احمد عظیم