میں تو سویا بھی نہ تھا کیوں یہ در خواب گرا
میری آغوش میں بجھتا ہوا مہتاب گرا
پھر سمندر کی طرف لوٹ چلی موج بہ موج
پھر کوئی تشنہ دہن آ کے سر آب گرا
عکس مسمار نہ کر دیدۂ حیراں کے سرشک
میرے خوابوں کے در و بام نہ سیلاب گرا
ڈھونڈ سیپی کی طرح دل کو نہ ساحل کے قریب
یہ صدف دور بہت دور تہہ آب گرا
آہن و سنگ کو زہراب فنا چاٹ گیا
پہلے دیوار شکستہ ہوئی پھر باب گرا
غزل
میں تو سویا بھی نہ تھا کیوں یہ در خواب گرا
احمد عظیم