EN हिंदी
عشق میں ہو کے مبتلا دل نے کمال کر دیا | شیح شیری
ishq mein ho ke mubtila dil ne kamal kar diya

غزل

عشق میں ہو کے مبتلا دل نے کمال کر دیا

احمد عظیم

;

عشق میں ہو کے مبتلا دل نے کمال کر دیا
یوں ہی سی ایک شکل کو زہرہ جمال کر دیا

ہم کو تمہاری بزم سے اٹھنے کا کچھ قلق نہیں
جیسا خیال ہو سکا ویسا خیال کر دیا

سیل روان عمر کے آگے ٹھہر سکا نہ کچھ
وقت نے مہر حسن کو رو بہ زوال کر دیا

ایک سم عذاب سا پھیل گیا وجود میں
روز و شب فراق نے جینا محال کر دیا

میری زبان خشک پر ریت کا ذائقہ سا ہے
موسم بر شگال نے کیسا یہ حال کر دیا

دھند میں کھو کے رہ گئیں صورتیں مہر و ماہ سی
وقت کی گرد نے انہیں خواب و خیال کر دیا