عشق میں ہو کے مبتلا دل نے کمال کر دیا
یوں ہی سی ایک شکل کو زہرہ جمال کر دیا
ہم کو تمہاری بزم سے اٹھنے کا کچھ قلق نہیں
جیسا خیال ہو سکا ویسا خیال کر دیا
سیل روان عمر کے آگے ٹھہر سکا نہ کچھ
وقت نے مہر حسن کو رو بہ زوال کر دیا
ایک سم عذاب سا پھیل گیا وجود میں
روز و شب فراق نے جینا محال کر دیا
میری زبان خشک پر ریت کا ذائقہ سا ہے
موسم بر شگال نے کیسا یہ حال کر دیا
دھند میں کھو کے رہ گئیں صورتیں مہر و ماہ سی
وقت کی گرد نے انہیں خواب و خیال کر دیا

غزل
عشق میں ہو کے مبتلا دل نے کمال کر دیا
احمد عظیم