دستک ہوا کی سن کے کبھی ڈر نہیں گیا
لیکن میں چاند رات میں باہر نہیں گیا
آنکھوں میں اڑ رہا ہے ابھی تک غبار ہجر
اب تک وداع یار کا منظر نہیں گیا
اے شام ہجر یار مری تو گواہی دے
میں تیرے ساتھ ساتھ رہا گھر نہیں گیا
تو نے بھی سارے زخم کسی طور سہ لیے
میں بھی بچھڑ کے جی ہی لیا مر نہیں گیا
سادہ فصیل شہر مجھے دیکھتی رہی
لیکن میں تیرا نام بھی لکھ کر نہیں گیا
بخشا شب فراق کو دل نے ابد کا طول
شب بھر لہولہان رہا مر نہیں گیا
غزل
دستک ہوا کی سن کے کبھی ڈر نہیں گیا
احمد عظیم